ہمارے آگے رقیب سیاہ رو کیا ہے
ہوئے جو دوست تم اپنے تو پھر عدو کیا ہے
نہ جانے کتنے ہی ایسے ہیں ایک تو کیا ہے
بڑے بڑوں کی جہاں میں اب آبرو کیا ہے
رگوں میں صرف تموج کی آرزو کیا ہے
جو انقلاب نہ لائے تو پھر لہو کیا ہے
بہار آتے ہی وحشت اگر لے انگڑائی
تو پھر یہ زخم کے ٹانکے ہیں کیا رفو کیا ہے
ملیں تو پوچھیں یہ ارباب حسن جوہر سے
غرض نہیں ہے تو دنیائے رنگ و بو کیا ہے
حقیقتوں پہ ابھی ہیں مجاز کے پردے
جو یہ ہٹیں تو سمجھ میں پھر آئے تو کیا ہے
نگاہ رحمت حق میں یہ آ گئے ورنہ
ہمارے اشک ندامت کی آبرو کیا ہے
جو ہاتھ دھو چکا خود زندگی سے اے شعلہؔ
نماز عشق ہے کیا اس کی پھر وضو کیا ہے

غزل
ہمارے آگے رقیب سیاہ رو کیا ہے
شعلہ کراروی