ہمارا اشک نہیں ہے یہ قدر گوہر ہے
شکست ضبط نہ کہئے اسے یہ جوہر ہے
اسی نے دھوئے ہیں دامن کے داغ اے ہمدم
اسی کا آج بھی پتھر کے دل میں کچھ ڈر ہے
حدیث رنج و الم سے ڈرا نہ اے ناصح
حدیث رنج و الم ہی تو آج گھر گھر ہے
خدایا اس سے زیادہ ہوا تو کیا ہوگا
نظام زیست بہت آج کل مکدر ہے
سر نیاز کی جس کو سدا تلاش رہی
اگر ملے جو مقدر سے آپ کا در ہے
تمہارے جلوے پہ موقوف ہے نظام حیات
اگرچہ طور کا قصہ مجھے بھی ازبر ہے
فریب کھا کے بھی وعدوں پہ اعتبار اے نورؔ
عجب شعور وفا تیرا میرے دلبر ہے
غزل
ہمارا اشک نہیں ہے یہ قدر گوہر ہے
نور محمد نور