ہما شما کو نہیں دوست ہی کو بھول گیا
نہ بھولنا تھا جسے وہ اسی کو بھول گیا
تونگری نے بدل ہی دیا ہے اس کا مزاج
وہ مجھ کو اور مری دوستی کو بھول گیا
کمی تو مے کی نہیں تھی مگر مرا ساقی
کسی کو جام دیا اور کسی کو بھول گیا
اطاعتیں ہی تو جینے کا عین مقصد ہے
خدا کا بندہ مگر بندگی کو بھول گیا
وہ میری جان کا دشمن ہے جانتا تھا میں
ملا جو ہنس کے تو میں دشمنی کو بھول گیا
قفس میں رہنے کا صیاد یہ نہیں مطلب
قفس میں رہ کے میں پرواز ہی کو بھول گیا
تمام عمر میں شاید تری تلاش میں تھا
تو مل گیا تو میں آوارگی کو بھول گیا
سفر طویل تھا اور میں تھکا ہوا تھا نظیرؔ
لگن تھی اتنی کہ واماندگی کو بھول گیا
غزل
ہما شما کو نہیں دوست ہی کو بھول گیا
نذیر میرٹھی