ہمہ تن گوش اک زمانہ تھا
میرے لب پر ترا فسانہ تھا
کاش دل ہی ذرا ٹھہر جاتا
گردشوں میں اگر زمانہ تھا
ہم تھے اور اعتماد فصل بہار
شاخ شاخ اپنا آشیانہ تھا
وہ بہاریں بھی ہم پہ گزری ہیں
جب قفس تھا نہ آشیانہ تھا
دل کی امیدواریاں نہ گئیں
اس کرم کا کوئی ٹھکانہ تھا
صبح سے پہلے بجھ گیا تابشؔ
ایک دل ہی چراغ خانہ تھا
غزل
ہمہ تن گوش اک زمانہ تھا
تابش دہلوی