ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے
بستی میں ہول آیا تو جنگل میں جا رہے
کمرے میں میرے دھوپ کا آنا بہ وقت صبح
آنکھوں میں کاش ایک ہی منظر بسا رہے
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کوئی کسی عزیز سے کب تک خفا رہے
کب تک کسی پڑاؤ پہ وحشت کرے قیام
کب تک کسی کے ہجر کا سایہ گھنا رہے
بابا یہ مجھ حقیر کو اتنی بڑی دعا
تو بات کا دھنی ہے ترا قد سوا رہے
شہپرؔ صدائے وقت سے کر لو مصالحت
محرومیوں کے در پہ کوئی کیوں پڑا رہے
غزل
ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے
شہپر رسول