ہم ذرے ہیں خاک رہ گزر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے
چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
وعدہ نہ دلاؤ یاد ان کا
نادم ہوں خود اعتبار کر کے
اے باد سحر نہ چھیڑ ہم کو
ہم جاگے ہوئے ہیں رات بھر کے
شبنم کی طرح حیات کے خواب
کچھ اور نکھر گئے بکھر کے
جب ان کو خیال وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے
یوں موت کے منتظر ہیں باقیؔ
مل جائے گا چین جیسے مر کے
غزل
ہم ذرے ہیں خاک رہ گزر کے
باقی صدیقی