EN हिंदी
ہم ذرے ہیں خاک رہ گزر کے | شیح شیری
hum zarre hain KHak-e-rahguzar ke

غزل

ہم ذرے ہیں خاک رہ گزر کے

باقی صدیقی

;

ہم ذرے ہیں خاک رہ گزر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے

چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے

وعدہ نہ دلاؤ یاد ان کا
نادم ہوں خود اعتبار کر کے

اے باد سحر نہ چھیڑ ہم کو
ہم جاگے ہوئے ہیں رات بھر کے

شبنم کی طرح حیات کے خواب
کچھ اور نکھر گئے بکھر کے

جب ان کو خیال وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے

یوں موت کے منتظر ہیں باقیؔ
مل جائے گا چین جیسے مر کے