ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے
شوق سے تو مجھے اب قوت پرداز نہ دے
دائرے ٹوٹ نہ جائیں مرے خوابوں کے کہیں
سو گیا ہوں مجھے اب کوئی بھی آواز نہ دے
تجھ کو دینا ہے اگر تلخی انجام کا زہر
دینے والے مجھے خوش فہمیٔ آغاز نہ دے
راز داروں کا کہا مان کے یہ حال ہوا
مشورہ کوئی مجھے اب مرا ہم راز نہ دے
یا فضاؤں کو محیط مہ و خورشید نہ کر
یا مری فکر کو تو جرأت پرواز نہ دے
یا زمانے کو تو محروم سماعت کر دے
یا مجھے درد میں ڈوبی ہوئی آواز نہ دے
غزل
ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے
مرتضیٰ برلاس