ہم زمانے سے فقط حسن گماں رکھتے ہیں
ہم زمانے سے توقع ہی کہاں رکھتے ہیں
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے
لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں
کچھ ہمارے بھی ستارے ترے دامن پہ رہیں
ہم بھی کچھ خواب جہان گزراں رکھتے ہیں
چند آنسو ہیں کہ ہستی کی چمک ہے جن سے
کچھ حوادث ہیں کہ دنیا کو جواں رکھتے ہیں
جان و دل نذر ہیں لیکن نگہ لطف کی نذر
مفت بکتے ہیں قیامت بھی گراں رکھتے ہیں
اپنے حصے کی مسرت بھی اذیت ہے ضمیرؔ
ہر نفس پاس غم ہم نفساں رکھتے ہیں
غزل
ہم زمانے سے فقط حسن گماں رکھتے ہیں
سید ضمیر جعفری