ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں
مگر اس کے کرم کے سلسلے دنیا پہ جاری ہیں
کریں یہ سیر کاروں میں کہ اڑ لیں یہ جہازوں میں
فرشتہ موت کا کہتا ہے یہ میری سواری ہیں
نہ ان کے قول ہی سچے نہ ان کے تول ہی سچے
یہ کیسے دیش کے تاجر ہیں کیسے بیوپاری ہیں
ہماری مفلسی آوارگی پہ تم کو حیرت کیوں
ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سوغاتیں تمہاری ہیں
نسب کے خون کے رشتے ہوں یا پینے پلانے کے
کلائی پر بندھے دھاگے کے رشتے سب پہ بھاری ہیں
یہ اپنی بے بسی ہے یا کہ اپنی بے حسی یارو
ہے اپنا ہاتھ ان کے سامنے جو خود بھکاری ہیں
ہمیں بھی دیکھ لے دنیا کی رونق دیکھنے والے
تری آنکھوں میں جو آنکھیں ہیں وہ آنکھیں ہماری ہیں
عزیز ناتواں کے سامنے کہسار غم ہلکا
مگر احسان کے تنکے ازل سے ان پہ بھاری ہیں
غزل
ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں
عزیز انصاری