ہم ان کو حال دل اپنا سنائے جاتے ہیں
وہ بیٹھے سنتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں
وہ بعد قتل بھی خنجر لگائے جاتے ہیں
شہید ناز کی شوکت بڑھائے جاتے ہیں
خموش محفل اعدا میں دور بیٹھے ہیں
غضب ہے تو بھی وہ آنکھوں میں کھائے جاتے ہیں
یہ انفعال ہے کس کس جفا گری کے عوض
کہ بات بات میں وہ منہ چھپائے جاتے ہیں
سمجھ ہے گیا میں کہوں گا نہ کچھ خدا کی قسم
شراب آپ مجھے کیوں پلائے جاتے ہیں
یہ بزم یار میں ہے قدر و منزلت رونقؔ
کہ آئے کوئی وہاں ہم اٹھائے جاتے ہیں

غزل
ہم ان کو حال دل اپنا سنائے جاتے ہیں
رونق ٹونکوی