ہم عمر کے ساتھ ہیں سفر میں
بیٹھے ہوئے جا رہے ہیں گھر میں
ہم لٹ گئے تیری رہ گزر میں
یہ ایک ہوئی ہے عمر بھر میں
اب کون رہا کہ جس کو دیکھوں
اک تو تھا سو آ گیا نظر میں
حسرت کو ملا ہے خانۂ دل
تقدیر کھلی غریب گھر میں
آنکھیں نہ چراؤ دل میں رہ کر
چوری نہ کرو خدا کے گھر میں
اب وصل کی رات ہو چکی ختم
لو چھپ رہو دامن سحر میں
میں آپ ہی ان سے بولتا ہوں
بیٹھا ہوں زبان نامہ بر میں
مضطرؔ کرو دل ہی دل میں شکوے
رہ جائے گی بات گھر کی گھر میں
غزل
ہم عمر کے ساتھ ہیں سفر میں
مضطر خیرآبادی