ہم تم جب بھی پیار کریں گے جان و دل صدقے ہوں گے
روحوں کی خوشبو میں ہوں گی باہوں کے گجرے ہوں گے
پیشروو تم بیت چکے اب ہم لوگوں کی باری ہے
زندانوں کے در تو وا ہوں ہم آگے آگے ہوں گے
گمنامی کی گلیوں میں تاریخ کہاں تک پہنچے گی
ایک تمہی سقراط نہیں ہو اور بہت گزرے ہوں گے
حسن اگر زنجیر کیا ہے عشق بھی پھر زنجیر کرو
ورنہ بات بہت پھیلے گی دور تلک چرچے ہوں گے
اے چکوال سے آنے والو کچھ تو حال احوال کہو
پھول سے عارض چاند سے چہرے تم نے بھی دیکھے ہوں گے
غزل
ہم تم جب بھی پیار کریں گے جان و دل صدقے ہوں گے
اعجاز گل