EN हिंदी
ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے | شیح شیری
hum tujhse koi baat bhi karne ke nahin the

غزل

ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے

زکریا شاذ

;

ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے
امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے

بھر ڈالا انہیں بھی مری بے دار نظر نے
جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے

اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تری خاطر
وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے

کل رات تری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا
آنسو تھے کہ پلکوں پہ ٹھہرنے کے نہیں تھے

ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے
جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے

اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے