ہم تو مسحور تھے شدت کے سبب بول اٹھے
وہ بت سنگ بھی ممکن ہے کہ اب بول اٹھے
پھول الفاظ کے پھینکے ہیں اسی کی جانب
جانے وہ جان ادا ناز سے کب بول اٹھے
سامنا ان کا ہوا جب تو تھی نظریں نیچی
بے قراری میں مرے دست طلب بول اٹھے
قتل میرا بھی ہوا اور شہ وقت کا بھی
اک پہ خاموش رہے ایک پہ سب بول اٹھے
اٹھ کے صحراؤں سے مغرب کو ہلا دے آندھی
یک زباں ہو کے اگر ارض عرب بول اٹھے
مطمئن کیوں ہیں جواں چھاتی پہ پتھر رکھ کر
وقت پڑنے پہ اثرؔ کوہ کے لب بول اٹھے

غزل
ہم تو مسحور تھے شدت کے سبب بول اٹھے
مرغوب اثر فاطمی