ہم ترے غم کو جو پرکار بنا کر اٹھے
نفس گرم کو تلوار بنا کر اٹھے
آؤ ہم ہنستے اٹھیں بزم دل آزاراں سے
کون احساس کو بیمار بنا کر اٹھے
رات بھر تجربۂ خون جگر ہم نے کیا
صبح دم دشت کو گل زار بنا کر اٹھے
محفل راز میں ہم سہ گئے ہر وہم کی چوٹ
آخر اک عشق کا معیار بنا کر اٹھے
ان نگاہوں کا تقاضائے سخن یوں تھا کہ ہم
بے زبانی کو بھی اشعار بنا کر اٹھے
جب پئے فکر سخن ہم کبھی بیٹھے کوثرؔ
شعر کو مصر کا بازار بنا کر اٹھے
غزل
ہم ترے غم کو جو پرکار بنا کر اٹھے
کوثر جائسی