EN हिंदी
ہم تشخص کھو رہے ہیں ذات کی تشہیر میں | شیح شیری
hum tashaKHKHus kho rahe hain zat ki tashhir mein

غزل

ہم تشخص کھو رہے ہیں ذات کی تشہیر میں

قاسم جلال

;

ہم تشخص کھو رہے ہیں ذات کی تشہیر میں
خود بکھرتے جا رہے ہیں کوشش تعمیر میں

یہ بھی سوچیں کاش عزت کیا ہے اور ذلت ہے کیا
وہ جو رسوا ہو رہے ہیں حسرت توقیر میں

آج نخل مصلحت کی چھاؤں میں ہے محو خواب
پرورش جس کی ہوئی تھی سایۂ شمشیر میں

اے سخنور تم جو کہتے ہو وہ کیوں کرتے نہیں
کیوں ہم آہنگی نہیں کردار اور تحریر میں

اس کی صبحیں دل کشا ہیں اس کی شامیں جاں فزا
کھو گیا جو شخص لطف نالۂ شبگیر میں

ہو عطا جس شخص کو نور بصیرت اے جلالؔ
دیکھ لیتا ہے مصور کو بھی وہ تصویر میں