ہم تشخص کھو رہے ہیں ذات کی تشہیر میں
خود بکھرتے جا رہے ہیں کوشش تعمیر میں
یہ بھی سوچیں کاش عزت کیا ہے اور ذلت ہے کیا
وہ جو رسوا ہو رہے ہیں حسرت توقیر میں
آج نخل مصلحت کی چھاؤں میں ہے محو خواب
پرورش جس کی ہوئی تھی سایۂ شمشیر میں
اے سخنور تم جو کہتے ہو وہ کیوں کرتے نہیں
کیوں ہم آہنگی نہیں کردار اور تحریر میں
اس کی صبحیں دل کشا ہیں اس کی شامیں جاں فزا
کھو گیا جو شخص لطف نالۂ شبگیر میں
ہو عطا جس شخص کو نور بصیرت اے جلالؔ
دیکھ لیتا ہے مصور کو بھی وہ تصویر میں

غزل
ہم تشخص کھو رہے ہیں ذات کی تشہیر میں
قاسم جلال