ہم ستاروں میں ترا عکس نا ڈھلنے دیں گے
چاند کو شام کی دہلیز پہ جلنے دیں گے
آج چھو لیں گے کوئی عرش مرے وہم و گماں
خواب کو نیند کی آنکھوں میں مچلنے دیں گے
ہم بھی دیکھیں گے کہاں تک ہے رسائی اپنی
دل کو بہلائیں گے ہم اور نا سنبھلنے دیں گے
شب کی آغوش میں پھیلیں نہ گماں کے سائے
اب نگاہوں میں کوئی خوف نا پلنے دیں گے
ہو نہ جائے کہیں انجام سے پہلے انجام
اس کہانی کو اسی طور سے چلنے دیں گے
عکس در عکس ملیں گے تجھے منظر منظر
تو جو چاہے بھی کہاں تجھ کو بدلنے دیں گے
نقش در نقش ہوئے جائیں گے بس خاک یہیں
خود کو اس دشت گماں سے نا نکلنے دیں گے
غزل
ہم ستاروں میں ترا عکس نا ڈھلنے دیں گے
عنبرین صلاح الدین