ہم شاید کچھ ڈھونڈ رہے تھے یاد آیا تو روتے ہیں
تازہ تازہ اس کو کھو کر جانے کیا کیا کھوتے ہیں
ایک طرف یہ دنیا داری ایک طرف وہ خلوت غم
دنیا والو ہر محفل میں دیکھو ہم بھی ہوتے ہیں
پہلی کرن کا دھڑکا کیا کیا دل کو مسکتا جائے ہے
بھور بھئے جب کنج میں غنچے منہ شبنم سے دھوتے ہیں
تجھ کو ترے گل پھول مبارک یاں ضد ٹھہری جینے سے
ہم تو اپنی راہ میں پیارے چن چن کانٹے بوتے ہیں
تیرے دکھ سکھ تو ہی جانے ہم نے بس اتنا جانا ہے
تجھ سے پہلے جاگ اٹھتے ہیں تیرے بعد ہی سوتے ہیں
سیج کو سونا کر گئے خوباں شکن شکن فریاد کرے
پہلو پہلو چونک اٹھے ہم کروٹ کروٹ روتے ہیں
اس نے باغ سے جاتے جاتے موسم گل بھی باندھ لیا
شاذؔ کو دیکھو دیوانے ہیں بیٹھے ہار پروتے ہیں
غزل
ہم شاید کچھ ڈھونڈ رہے تھے یاد آیا تو روتے ہیں
شاذ تمکنت