ہم سے الفت جتائی جاتی ہے
بے قراری بڑھائی جاتی ہے
دیکھ کر ان کے لب پہ خندۂ نور
نیند سی غم کو آئی جاتی ہے
غم الفت کے کارخانے میں
زندگی جگمگائی جاتی ہے
ان کی چشم کرم پہ ناز نہ کر
یوں بھی ہستی مٹائی جاتی ہے
بزم میں دیکھ رنگ آمد دوست
روشنی تھرتھرائی جاتی ہے
دیکھ اے دل وہ اٹھ رہی ہے نقاب
اب نظر آزمائی جاتی ہے
ان کے جاتے ہی کیا ہوا دل کو
شمع سی جھلملائی جاتی ہے
تیری ہر ایک بات میں احسانؔ
اک نہ اک بات پائی جاتی ہے
غزل
ہم سے الفت جتائی جاتی ہے
احسان دانش