ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
جب تک کہ ادھر ہی سے کچھ امداد نہ ہووے
ہم کو بھی نہیں چین ترے غمزوں سے دلبر
جب تک کہ نیا اک ستم ایجاد نہ ہووے
اے آہ ذرا اٹھیو تو آہستہ کہ وہ جو
تھوڑا سا اثر ہے کہیں برباد نہ ہووے
دی تھی یہ دعا کس نے مرے دل کو الٰہی
اجڑے یہ گھر ایسا کہ پھر آباد نہ ہووے
دیکھا نہ کسی وقت میں ہنستے ہوے اس کو
یہ بھی کوئی دل ہے جو کبھی شاد نہ ہووے
بھولے سے بھی بھولو نہ کبھی غیروں کا تم نام
اور نام ہمارا ہی تمہیں یاد نہ ہووے
کیوں دیکھو ہو اس کا قد و رو بلبل و قمری
کیا سمجھے ہو تم یہ گل و شمشاد نہ ہووے
مر جائیں قفس میں یوں ہی ہم آہ تڑپ کر
اتنی جو خبر لینے کو صیاد نہ ہووے
دل جل کے جہاں سرمہ ہوا قیس کا اب تک
اس جا پہ جرس پہنچے تو فریاد نہ ہووے
میرے لئے قاتل بھی اگر ہووے تو ہووے
پر غیر کے حق میں تو وہ جلاد نہ ہووے
وارستہ جو ہو قید سے ہستی کے تو بہتر
پر دام سے تیرے حسنؔ آزاد نہ ہووے
غزل
ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
میر حسن