EN हिंदी
ہم سے رخسار وہ لب بھول گئے | شیح شیری
humse ruKHsar wo lab bhul gae

غزل

ہم سے رخسار وہ لب بھول گئے

عین سلام

;

ہم سے رخسار وہ لب بھول گئے
زندگی کرنے کا ڈھب بھول گئے

رات دن محو رہا کرتے تھے
جانے کیا تھی وہ طلب بھول گئے

آ گیا سر پہ ڈھلتا سورج
رات کے شور و شغب بھول گئے

رنج محرومئ دل یاد رہا
رونق بزم طرب بھول گئے

نقش دیوار بنے بیٹھے ہیں
یاد اتنا ہے کہ سب بھول گئے

زندگی بگڑی تو ایسی بگڑی
جو بھی تھے رنج و تعب بھول گئے

دل میں کیا کیا نہ تھے ارمان سلامؔ
شکر صد شکر کہ سب بھول گئے