EN हिंदी
ہم سے پہلے تو کوئی یوں نہ پھرا آوارہ | شیح شیری
humse pahle to koi yun na phira aawara

غزل

ہم سے پہلے تو کوئی یوں نہ پھرا آوارہ

سید منیر

;

ہم سے پہلے تو کوئی یوں نہ پھرا آوارہ
درد آوارہ دل آوارہ وفا آوارہ

کیا اسے مل گئی کچھ تیرے بدن کی خوشبو
آج پھولوں میں نہیں آئی صبا آوارہ

جس کی نزہت سے دوبالا تھی وطن کی رونق
شہر سے دور مجھے وہ بھی ملا آوارہ

میں نے کب مجھ سے نہ ملنے کا گلا تم سے کیا
اب مجھے تم نہ کہو بہر خدا آوارہ

پھر تری یاد نے سینے میں بسیرا ڈالا
پھر ترے شہر میں آباد ہوا آوارہ

بے کراں وقت کی بندش سے ملی آزادی
چند لمحوں کے لئے میں بھی ہوا آوارہ

تہمت قدر بھی ہے جبر کی رسوائی میں
پا بہ زنجیر کو بھی تم نے کہا آوارہ

دھوپ ہے تپتی ہوئی ریت ہے ویرانی ہے
آج دیکھا نہیں وہ آبلہ پا آوارہ

بے وفا لوگوں کے ہاتھوں سے چھڑا کر دامن
دل میں کس شوق سے پھرتی ہے وفا آوارہ

سوچتا ہوں کہ اسے جب نہ ملے شرف قبول
کن خلاؤں میں بھٹکتی ہے دعا آوارہ

ایک آندھی غم جاناں کی ذرا ٹھہری تھی
اک بگولا غم دوراں کا اٹھا آوارہ

کتنی آنکھوں کے تعاقب سے ہراماں ہو کر
کنج تنہائی میں آباد ہوا آوارہ

رخ روشن کی جھلک شرط وفا ہے جاناں
تیری گلیوں کا پتہ بھول گیا آوارہ

خیمہ زن پھر سے ہوئی صحن چمن باد سموم
پھر مرے ساتھ ہوئی باد صبا آوارہ

منزل عشق پہ پہنچے تو کوئی ساتھ نہ تھا
دل جدا خاک بسر آنکھ جدا آوارہ

نطق ویران ہے الفاظ پریشاں ہیں منیرؔ
سوچ ہے سنگ گراں اور صدا آوارہ