EN हिंदी
ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر | شیح شیری
humse karte ho bayan ghairon ki yari aan kar

غزل

ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر

محمد عیسیٰ تنہا

;

ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر
رہ گئی ہے آپ کی یہ دوست داری آن کر

ہم کو آنے سے تمہاری بزم کے کیا تھا حصول
دیکھ لیتے تھے مگر صورت تمہاری آن کر

روٹھنے پر میرے کیا لازم تھا ہو جانا خفا
بلکہ کرنی تھی تمہیں خاطر ہماری آن کر

طعن بد خواہاں سے تو اک دم نہ پاوے گا قرار
کی جو تیرے در پہ ہم نے بے قراری آن کر

تھا اگرچہ غش میں مجنوں لیکن آنکھیں کھل گئیں
سر پہ اس کے جس گھڑی لیلیٰ پکاری آن کر

جس جگر کشتہ کا تیرے لاشہ تھا خوں میں پڑا
خوب سا رویا وہاں ابر بہاری آن کر

میں بھی کیا برگشتہ طالع ہوں کہ تنہاؔ رات کو
پھر گئی در تک مرے اس کی سواری آن کر