ہم سے دیوانوں کو عصری آگہی ڈستی رہی
کھوکھلی تہذیب کی فرزانگی ڈستی رہی
شعلۂ نفرت تو بھڑکا ایک لمحہ کے لیے
مدتوں پھر شہر کو اک تیرگی ڈستی رہی
موت کی ناگن سے اب ہرگز وہ ڈر سکتا نہیں
جس کو ساری عمر خود یہ زندگی ڈستی رہی
میں نہ جانے کتنے جنموں کا ہوں پیاسا دوستو
رہ کے دریا میں بھی مجھ کو تشنگی ڈستی رہی
آپ کے ہونٹوں پہ جو مدت سے ہے چھائی ہوئی
درد میں ڈوبی ہوئی وہ خامشی ڈستی رہی
ایک تم ہو دشمنی بھی راس آئی ہے جسے
اور اک میں ہوں کہ جس کو دوستی ڈستی رہی
ہر گھڑی چہرے پہ جو چہرے لگاتا ہی رہا
عمر بھر اس کو اسدؔ بے چہرگی ڈستی رہی

غزل
ہم سے دیوانوں کو عصری آگہی ڈستی رہی
اسد رضا