ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے
تتلیوں نے کاغذی پھولوں پہ ڈیرا کر لیا
راستے میں جگنوؤں کے بال و پر چھینے گئے
اس قدر بڑھنے لگے ہیں گھر سے گھر کے فاصلے
دوستوں سے شام کے پیدل سفر چھینے گئے
کالے سورج کی ضیا سے شہر اندھا ہو گیا
خون میں خوشبو اگانے کے ہنر چھینے گئے
آنکھ آنکھوں سے زبانوں سے زباں چھینی گئی
داستاں سے داستانوں کے شرر چھینے گئے

غزل
ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
افتخار قیصر