ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا
لام کا خوب الف مد مقابل ٹھہرا
دیدۂ تر سے جو دامن میں گرا دل ٹھہرا
بہتے بہتے یہ سفینہ لب ساحل ٹھہرا
کی نظر روئے کتابی پہ تو کچھ دل ٹھہرا
مکتب شوق بھی قرآن کی منزل ٹھہرا
نگہت گل سے پریشان ہوا اس کا دماغ
خندۂ گل نہ ہوا شور عنادل ٹھہرا
نجد سے قیس جو آیا مرے زنداں کی طرف
دیر تک گوش بر آواز سلاسل ٹھہرا
حسن جس طفل کا چمکا وہ ہوا باعث قتل
جس نے تلوار سنبھالی مرا قاتل ٹھہرا
خط جو نکلا رخ جاناں پہ ملا بوسۂ خال
یہی دانہ فقط اس کشت کا حاصل ٹھہرا
علم اک نقطہ جو مشہور تھا اے جوش جنوں
غور سے کی جو نظر نقطۂ باطل ٹھہرا
دور جب تک تھے تڑپتا تھا میں کیسا کیسا
پاس آ کر وہ جو ٹھہرے تو مرا دل ٹھہرا
کثرت داغ سے گلدستہ بنا دل تو کیا
زینت باغ نہ آرائش محفل ٹھہرا
دوڑتا قیس بھی آتا ہے نہایت ہی قریب
اک ذرا ناقے کو اے صاحب محمل ٹھہرا
دم جو بیتاب تھا مدت سے مرے سینے میں
تیغ قاتل کے تلے کچھ دم بسمل ٹھہرا
ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہارا ہے یہ حال
گھر سے دروازے تک آنا کئی منزل ٹھہرا
اب تک آتی ہے صدا تربت لیلیٰ سے امیرؔ
ساربان اب تو خدا کے لیے محمل ٹھہرا
غزل
ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا
امیر مینائی