ہم سکوں پائیں گے سلماؤں میں کیا
خوشبوؤں کا قحط ہے گاؤں میں کیا
کم نہیں گہرے سندر سے جو دل
وہ بھلا ڈوبے گا دریاؤں میں کیا
ہر طرف روشن ہیں یادوں کے کلس
گھر گئے ہیں ہم کلیساؤں میں کیا
جن کی آنکھوں میں ہے نیندوں کا غبار
روشنی پائیں گے صحراؤں میں کیا
رات دن قرنوں سے ہوں گرم سفر
ایک چکر ہے مرے پاؤں میں کیا
دھوپ تو بدنام ہے یوں ہی رضاؔ
پھول مرجھاتے نہیں چھاؤں میں کیا
غزل
ہم سکوں پائیں گے سلماؤں میں کیا
رضا ہمدانی