EN हिंदी
ہم سفر راتوں کے سائے ہو گئے | شیح شیری
ham-safar raaton ke sae ho gae

غزل

ہم سفر راتوں کے سائے ہو گئے

مشتاق نقوی

;

ہم سفر راتوں کے سائے ہو گئے
چاند تارے راستوں میں سو گئے

قصۂ دل میں وفا کی بات پر
اس نے یوں دیکھا کہ ہم چپ ہو گئے

تم تو کوئی اجنبی ہو اجنبی
جو ہمارے تھے وہ تم کیا ہو گئے

منزلیں آواز دے کر تھک گئیں
قافلے گرد سفر میں کھو گئے

آج تک آنکھوں میں اک تصویر ہے
گو اسے دیکھے زمانے ہو گئے