ہم سب کو بتاتے رہتے ہیں یہ بات پرانی کام کی ہے
دس بیس گھروں میں چرچے ہوں تب جا کے جوانی کام کی ہے
یہ وقت ابھی تھم جائے گا ماحول میں دل رم جائے گا
بس آپ یوں ہی بیٹھے رہئے یہ رات سہانی کام کی ہے
آسان بھی ہے دشوار بھی ہے دکھ سکھ کا بڑا بازار بھی ہے
معلوم نہیں تو مجھ سے سنو یہ دنیا دوانی کام کی ہے
مشہور بھی ہیں بدنام بھی ہیں خوشیوں کے نئے پیغام بھی ہیں
کچھ غم کے بڑے انعام بھی ہیں پڑھیے تو کہانی کام کی ہے
جو لوگ چلے ہیں رک رک کر ہموار زمیں پر جھک جھک کر
وہ کیسے بتائیں گے تم کو دریا کی روانی کام کی ہے
غزل
ہم سب کو بتاتے رہتے ہیں یہ بات پرانی کام کی ہے
انجم بارہ بنکوی