ہم روح کائنات ہیں نقش اساس ہیں
ہم وقت کا خمیر زمانے کی باس ہیں
تنہا ہیں ہم تمام نہ قربت نہ فاصلے
ہم آپ کے قریب نہ ہم اپنے پاس ہیں
کب سے ٹنگے ہوئے ہیں خلاؤں کے آس پاس
کب سے یہ آسماں کے ستارے اداس ہیں
خود ہٹ گئے ہیں دور وہ پانی کے زور سے
دریا کے وہ کنارے جو دریا شناس ہیں
خود رو ہیں ہم ہمیں نہ خزاں سے ڈرائیے
صحرا کے مست پھول ہیں جنگل کی گھاس ہیں
کتنی بہاریں آ کے چمن سے گزر گئیں
ہم ہیں کہ ایک گل کے لیے محو یاس ہیں
جن کے بدن پہ اطلس و کمخاب ہے صمدؔ
سچ پوچھئے تو لوگ وہی بے لباس ہیں

غزل
ہم روح کائنات ہیں نقش اساس ہیں
صمد انصاری