EN हिंदी
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا | شیح شیری
ham-rang laghari se hun gul ki shamim ka

غزل

ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا

مومن خاں مومن

;

ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
طوفان باد ہے مجھے جھونکا نسیم کا

چھوڑا نہ کچھ بھی سینے میں طغیان اشک نے
اپنی ہی فوج ہو گئی لشکر غنیم کا

یاران نو کے واسطے مجھ سے خفا ہوئے
تم کو نہیں ہے پاس نیاز قدیم کا

یاد آئی کافروں کو مری آہ سرد کی
کیونکہ نہ کانپنے لگے شعلہ جحیم کا

ازبسکہ ثبت نامہ ہے سوز تپ دروں
قاصد کا ہاتھ ہے ید بیضا کلیم کا

واعظ کبھی ہلا نہیں کوئے صنم سے میں
کیا جانوں کیا ہے مرتبہ عرش عظیم کا

مارا ہے وصل غیر کے شکوہ پہ چاہیئے
مدفن جدا جدا مری لاش دو نیم کا

کہتا ہے بات بات پہ کیوں جان کھا گئے
گویا کہ پک گیا ہے کلیجہ ندیم کا

واعظ بتوں کو خلد میں لے جائیں گے کہیں
ہے وعدہ کافروں سے عذاب الیم کا

مومنؔ تجھے تو وہب ہے مومن ہی وہ نہیں
جو معتقد نہیں تری طبع سلیم کا