ہم رہ گئے ہمارا خلل کیوں نہیں رہا
مشکل کا ایک حل تھا وہ حل کیوں نہیں رہا
مڑ مڑ کے دیکھتا ہوں وہیں کا وہیں غبار
میں چل رہا ہوں راستہ چل کیوں نہیں رہا
موضوع کو بدلتا ہوں صفحے الٹتا ہوں
مضمون کیا بتاؤں بدل کیوں نہیں رہا
میرے اور اس کے بیچ شب آخریں کا داغ
اک آخری چراغ ہے جل کیوں نہیں رہا
میں نے کہا خدا سے خدا نے کہا مجھے
گھر سے کوئی گلی میں نکل کیوں نہیں رہا
غزل
ہم رہ گئے ہمارا خلل کیوں نہیں رہا
شاہین عباس