EN हिंदी
ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں | شیح شیری
hum phaDak kar toDte sari qafas ki tiliyan

غزل

ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں

شاہ نصیر

;

ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
پر نہیں اے ہم صفیرو! اپنے بس کی تیلیاں

بہر ایواں اور بنوا چلمن اے پردہ نشیں
ہو گئی بد رنگ ہیں اگلے برس کی تیلیاں

خاک میں نا جنس رہتے ہیں نہ اہل امتیاز
اے فلک بنتی نہیں جاروب خس کی تیلیاں

عین فصل گل میں ہی صیاد بے پروا نے آہ
دس کے پر کترے تو کیں آنکھوں میں دس کی تیلیاں

حرص دنیا چاہتی ہے یہ کہ سیم و زر کی ہوں
یہ چراغ خانۂ اہل ہوس کی تیلیاں

امتیاز نیک و بد خود ہو نہ جس کو اے نصیرؔ
اس کے نزدیک ایک ہیں خاشاک و خس کی تیلیاں