EN हिंदी
ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے | شیح شیری
hum paDh rahe the KHwab ke purzon ko joD ke

غزل

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے

شہریار

;

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے
آندھی نے یہ طلسم بھی رکھ ڈالا توڑ کے

آغاز کیوں کیا تھا سفر ان خلاؤں کا
پچھتا رہے ہو سبز زمینوں کو چھوڑ کے

اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے

کچھ بھی نہیں جو خواب کی صورت دکھائی دے
کوئی نہیں جو ہم کو جگائے جھنجھوڑ کے

ان پانیوں سے کوئی سلامت نہیں گیا
ہے وقت اب بھی کشتیاں لے جاؤ موڑ کے