ہم نے تو اس عشق میں یارو کھینچے ہیں آزار بہت
تم کچھ اس کی بات کرو ہے جس سے تم کو پیار بہت
لوگ ہم ایسے نادانوں کو آئیں گے سمجھانے بھی
تیرا غم پھر تیرا غم ہے غم ہے تو غم خوار بہت
آئے موسم گل دیکھیں وہ کس کس کو زنجیر کریں
اب کے سنا ہے اہل چمن بھی بیٹھے ہیں بیزار بہت
ان کو بے حس جان نہ ساقی اول شب ہے بادہ نوش
رات ڈھلے محسوس کریں گے شیشے کی جھنکار بہت
اپنا اپنا حسن نظر ہے اپنی اپنی منزل ہے
شرط میسر آتا ہے تو سایۂ زلف یار بہت
غزل
ہم نے تو اس عشق میں یارو کھینچے ہیں آزار بہت
رسا چغتائی