ہم نے تو بین میں نوحے میں صداکاری کی
آج دفنا دی ہے میت بھی روا داری کی
ہم سے بد تر کوئی فن کار جہاں میں ہوگا
ہم ادا کاریاں کرتے ہیں اداکاری کی
ہم نے غیرت کا بغاوت کا الاپا دیپک
تان اونچی ہے مگر آج بھی درباری کی
ہم کو سائے سے بھی شاہوں کے بچا کر رکھنا
ہم پہ آ جائے نہ تہمت بھی طرف داری کی
وہ نہ مانیں گے کہ یہ عین خطا ہے ان کی
وہ جو یاری کو بھی کہتے ہیں کہ عیاری کی
ہم تو انجان تھے اس گھر میں ہمارا کیا تھا
تم تو تمثال تھے دنیا میں سمجھ داری کی
جن سے اٹھتی تھیں سیہ آگ کی لپٹیں ہر دم
ہم نے ایسی بھی زمینوں میں شجرکاری کی
تم کو سوتے میں بھی کب آنکھ اٹھا کر دیکھا
ہم نے خوابوں میں بھی آنکھوں کی نگہ داری کی
غزل
ہم نے تو بین میں نوحے میں اداکاری کی
جنید اختر