EN हिंदी
ہم نے صحرا کو سجایا تھا گلستاں کی طرح | شیح شیری
humne sahra ko sajaya tha gulistan ki tarah

غزل

ہم نے صحرا کو سجایا تھا گلستاں کی طرح

فیض الحسن

;

ہم نے صحرا کو سجایا تھا گلستاں کی طرح
تم نے گلشن کو بنایا ہے بیاباں کی طرح

رات کا زہر پئے خواب کا آنچل اوڑھے
کون ہے ساتھ مرے گردش دوراں کی طرح

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اب تک بھی ہیں صحرا صحرا
اسی لمحے کو جو تھا فصل بہاراں کی طرح

مصلحت کوش زمانے کا بھروسہ کیا ہے
جو بھی ملتا ہے یہاں گردش دوراں کی طرح

آج وہ لمحے مجھے ڈستے ہیں تنہا پا کر
کبھی محبوب تھے جو مجھ کو دل و جاں کی طرح

جانے کیا بات ہے کیوں جشن مسرت میں ندیم
یاد آتی ہے تری شام غریباں کی طرح

کب تلک شہر کی گلیوں میں پھرو گے یارو
آسمانوں پہ اڑو تخت سلیماں کی طرح

یہ تو پروانوں کے دل ہیں جو پگھل جاتے ہیں
کون جلتا ہے یہاں شمع شبستاں کی طرح

کون خوابوں کے جزیرے سے چلا آیا خیالؔ
دل میں اک روشنی ہے صبح درخشاں کی طرح