EN हिंदी
ہم نے خطرہ مول لیا نادانی میں | شیح شیری
humne KHatra mol liya nadani mein

غزل

ہم نے خطرہ مول لیا نادانی میں

سبودھ لال ساقی

;

ہم نے خطرہ مول لیا نادانی میں
خود کو چھوڑا اپنی ہی نگرانی میں

اپنے زعم میں کتنے سورج ڈوب گئے
گھر سے چلے تھے آگ لگانے پانی میں

اس کو پوجا جس کا ہونا بھی مشکوک
ایک زاویہ یہ بھی ہے حیرانی میں

شاید یہ بستی بھی اب بک جائے گی
آئی یہاں بھی تیل کی خوشبو پانی میں

جما ہوا تھا ان آنکھوں میں ایک سوال
کس نے ملایا زہر مری گڑ دھانی میں