ہم نے خاک در محبوب جو چہرے پہ ملی
قصۂ درد چھڑا بات سے پھر بات چلی
کس طرح سمجھوں مرا عشق ہے سرگرم سفر
راہ بیدار ہوئی ہے نہ کہیں شمع جلی
دل کو بہلائیں کہ قدموں کو سنبھالیں ہم لوگ
جب نئے موڑ پہ پہنچے ہیں تو یہ شام ڈھلی
یہ مرے نقش قدم وقت سے مٹ سکتے ہیں
اپنے سینے سے لگائے ہے جنہیں تیری گلی
ہم نے ہر تار گریباں کو بنایا دامن
تیری یادوں کو لیے باد بہاری جو چلی
مجھ کو اس برق سے بس اتنا ہی شکوہ ہے صباؔ
آشیاں جل گیا کیوں شاخ نشیمن نہ جلی
غزل
ہم نے خاک در محبوب جو چہرے پہ ملی
صبا جائسی