EN हिंदी
ہم نے خاک در محبوب جو چہرے پہ ملی | شیح شیری
humne KHak-e-dar-e-mahbub jo chehre pe mali

غزل

ہم نے خاک در محبوب جو چہرے پہ ملی

صبا جائسی

;

ہم نے خاک در محبوب جو چہرے پہ ملی
قصۂ درد چھڑا بات سے پھر بات چلی

کس طرح سمجھوں مرا عشق ہے سرگرم سفر
راہ بیدار ہوئی ہے نہ کہیں شمع جلی

دل کو بہلائیں کہ قدموں کو سنبھالیں ہم لوگ
جب نئے موڑ پہ پہنچے ہیں تو یہ شام ڈھلی

یہ مرے نقش قدم وقت سے مٹ سکتے ہیں
اپنے سینے سے لگائے ہے جنہیں تیری گلی

ہم نے ہر تار گریباں کو بنایا دامن
تیری یادوں کو لیے باد بہاری جو چلی

مجھ کو اس برق سے بس اتنا ہی شکوہ ہے صباؔ
آشیاں جل گیا کیوں شاخ نشیمن نہ جلی