ہم نے جنون عشق میں کفر ذرا نہیں کیا
اس سے محبتیں تو کیں اس کو خدا نہیں کیا
عمر ہوئی کہ دیکھ کر نیند اچٹ گئی تھی ہاں
آنکھ نے پھر کبھی رقم خواب نیا نہیں کیا
تجھ سے کہا تھا خوشبوئیں اس کے بدن کی لائیو
میرا یہ کام آج تک تو نے سبا نہیں کیا
ہم سا بھی اس جہان میں ہوگا نہ کوئی یرغمال
قید سے اس کی آج تک خود کو رہا نہیں کیا
کیسے کہوں کہ دوستی تم نے نباہی دوستو
تم نے کرید کر کوئی زخم ہرا نہیں کیا
دیکھ تو بندگی میں بھی کیسا انا کا پاس تھا
لاکھ دکھوں کے باوجود کوئی گلہ نہیں کیا
سوچ رکھا تھا عشق سے رنگ بھریں گے شعر میں
دل نے مگر نہیں کیا عشق ضیاؔ نہیں کیا
غزل
ہم نے جنون عشق میں کفر ذرا نہیں کیا
ضیا ضمیر