EN हिंदी
ہم نے جب چاہا کوئی آگ بجھانے آئے | شیح شیری
humne jab chaha koi aag bujhane aae

غزل

ہم نے جب چاہا کوئی آگ بجھانے آئے

غیاث انجم

;

ہم نے جب چاہا کوئی آگ بجھانے آئے
آئے تو لوگ مگر دل کو جلانے آئے

کچھ اثر ہوتا نہیں بزم طرب کا دل پر
درد کا گیت کوئی آج سنانے آئے

راس جب آ نہ سکا شہر خرد کا ماحول
وسعت دشت و بیاباں میں دوانے آئے

بھاگی جاتی ہے یہ دنیا نئی رونق کی طرف
شہر ہے اجڑا ہوا کون بسانے آئے

آج تک جن کو نہیں راہ صداقت کی خبر
حق و باطل کا وہی فرق بتانے آئے

کیوں کسی غیر پہ الزام میں رکھتا انجمؔ
میرے اپنے وہ سبھی تھے جو رلانے آئے