ہم نے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا کر دیکھا
یعنی زخموں کو پھر اک بار ہرا کر دیکھا
ساری دنیا میں نظر آنے لگے تیرے نقوش
پردہ جب چشم بصیرت سے اٹھا کر دیکھا
دور پھر بھی نہ ہوئی قلب و نظر کی ظلمت
ہم نے خوں اپنا چراغوں میں جلا کر دیکھا
اپنا چہرہ نظر آیا مجھے اس چہرے میں
اس کے چہرے سے جو چہرے کو ہٹا کر دیکھا
وہ تعلق تری اک ذات سے جو تھا مجھ کو
اس تعلق کو بہر حال نبھا کر دیکھا
برف ہی برف نظر آتی ہے تاحد نظر
زندگی ہم نے تری کھوج میں جا کر دیکھا
جاوداں ہو گیا ہر نغمۂ پر درد مرا
میرے ہونٹوں سے زمانے نے چرا کر دیکھا
غزل
ہم نے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا کر دیکھا
نسرین نقاش