ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے
ان سرابوں پہ کوئی عمر گزارے کیسے
ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھے وہ تاریکی تھی
آ گئے ہاتھ میں کیا جانے ستارے کیسے
ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں
کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے
دل بجھا جتنے تھے ارمان سبھی خاک ہوئے
راکھ میں پھر یہ چمکتے ہیں شرارے کیسے
نہ تو دم لیتی ہے تو اور نہ ہوا تھمتی ہے
زندگی زلف تری کوئی سنوارے کیسے
غزل
ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے
جاوید اختر