ہم نے دیکھا ہے اتنے کھنڈر خواب میں
اب تو لگتا نہیں ہم کو ڈر خواب میں
اپنی برسوں سے ہے اک وہی آرزو
روز آ جائے ہے جو نظر خواب میں
وقت آنے پہ سب کو غشی آ گئی
جو بتاتے تھے خود کو نڈر خواب میں
ظلم کی آندھیاں بڑھ کے طوفاں ہوئیں
مست دنیا ہے پر رات بھر خواب میں
عشق کی یہ مسافت بھی کیا خوب ہے
چاند تارے ہوئے رہ گزر خواب میں
ان سے ہوتا ہے ہر رات عہد وفا
اور نبھاتے ہیں ہم بیشتر خواب میں
روز و شب کھو گئے ہیں نہ جانے کہاں
اب تو ہوتی ہے شام و سحر خواب میں
جو بہت معتبر آ رہے ہیں نظر
ان کے ہوتے ہیں کار دگر خواب میں
زندگی کی حقیقت عجب ہو گئی
آج کل ہو رہی ہے بسر خواب میں
غزل
ہم نے دیکھا ہے اتنے کھنڈر خواب میں
اشہد بلال ابن چمن