ہم نے اے دوست رفاقت سے بھلا کیا پایا
جوئے بے آب ہے تو میں شجر بے سایہ
درد جو عقل کے اسراف سے بچ رہتا ہے
عشق کے قحط زدوں کا ہے وہی سرمایا
دیدہ و دل سے گزرتا ہے کوئی شخص اکثر
جیسے آہوئے رمیدہ کا گریزاں سایا
کل فقط گیسوئے برہم تھے نشان تشویش
آج دیکھا تو انہیں اور پریشاں پایا
حسن سے جب بھی چھڑا معرکۂ دیدہ و دل
خود مرا عشق مرے مد مقابل آیا
میں ہوں خود اپنی ہی خاکستر جاں میں مدفون
دفن ہو جیسے خرابے میں کوئی سرمایا
غزل
ہم نے اے دوست رفاقت سے بھلا کیا پایا
رئیس امروہوی