ہم نشینو کچھ نہیں رکھا یہاں پر کچھ نہیں
چھوڑ دو اس کی ہوس دنیا کے اندر کچھ نہیں
در کھلا ہی رہنے دو گھر سے نکلتے وقت تم
کچھ اگر ہے تو تمہاری ذات ہے گھر کچھ نہیں
بائیں میں سورج رہے اور چاند دہنے ہاتھ میں
دل اگر روشن نہیں تو شعبدہ گر کچھ نہیں
میں سراپا رات بھی ہوں میں سراپا صبح بھی
مجھ سے کم تر کچھ نہیں اور مجھ سے برتر کچھ نہیں
اک چمک آنکھوں میں آ جاتی ہے اس کو دیکھ کر
ورنہ دل تو متفق ہے آپ سے، زر کچھ نہیں
آئنے سے رو کے پوچھا جب کبھی میں کون ہوں
آئینہ بولا وہیں فوراً پلٹ کر کچھ نہیں
وقت نے سب دور کر دی ہیں مری خوش فہمیاں
یہ مرا مخلص ہے مجھ کو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں
غزل
ہم نشینو کچھ نہیں رکھا یہاں پر کچھ نہیں
شبنم شکیل