ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں
تیری دہشت کے مارے مرتے ہیں
مار مت بے مروتی سے انہیں
جو مروت کے مارے مرتے ہیں
شکوہ کیا کیجے شام غربت کا
اپنی شامت کے مارے مرتے ہیں
کیا رقیبوں کو ماریے وہ آپ
سب رقابت کے مارے مرتے ہیں
یار سے دور ہیں وطن سے جدا
اس مصیبت کے مارے مرتے ہیں
سیکڑوں اس سے ہیں گے ہم آغوش
لاکھوں حسرت کے مارے مرتے ہیں
کچھ ہماری نہ پوچھئے صاحب
ہم تو غیرت کے مارے مرتے ہیں
ہے عجب زیست منتظرؔ ان کی
جو کہ الفت کے مارے مرتے ہیں
غزل
ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں
منتظر لکھنوی