ہم نہ دنیا کے ہیں نہ دیں کے ہیں
ہم تو اک زلف عنبریں کے ہیں
شیشہ و مے سے بے نیاز ہیں ہم
مست اس چشم سرمگیں کے ہیں
رنگ ہو روشنی ہو یا خوشبو
سب میں پرتو اسی حسیں کے ہیں
چشم بے خواب دامن گلگوں
سب کرشمے اسی ذہیں کے ہیں
ہیں مکیں قریۂ محبت کے
آسماں کے نہ ہم زمیں کے ہیں
آئے تھے شہر حسن میں اک دن
اور اک عمر سے یہیں کے ہیں
آیتیں ہیں ہماری قسمت کی
یہ جو چتون تری جبیں کے ہیں
ظلمت شام ہجر سے عمرانؔ
تذکرے ایک مہ جبیں کے ہیں

غزل
ہم نہ دنیا کے ہیں نہ دیں کے ہیں
عمران الحق چوہان