ہم مسلسل اک بیاں دیتے ہوئے
تھک چکے ہیں امتحاں دیتے ہوئے
بے زباں الفاظ کاغذ پر یہاں
گونگی یادوں کو زباں دیتے ہوئے
ہو گئے غرقاب اس کی آنکھ میں
خواہشوں کو ہم مکاں دیتے ہوئے
پھر ابھر آیا تری یادوں کا چاند
اجلا اجلا سا دھواں دیتے ہوئے
لطف جلنے کا الگ ہے ہجر میں
زخم میرے امتحاں دیتے ہوئے
لا رہے ہیں نیند کے آغوش میں
اشک مجھ کو تھپکیاں دیتے ہوئے
رو پڑا تھا جانے کیوں وہ ڈاکیہ
آج مجھ کو چٹھیاں دیتے ہوئے
اک بلا کا شور تھا آنکھوں میں پر
کہہ نہ پایا کچھ وہ جاں دیتے ہوئے
فاصلہ اتنا نہ رکھنا تھا خدا
اس زمیں کو آسماں دیتے ہوئے
غزل
ہم مسلسل اک بیاں دیتے ہوئے
آلوک مشرا