ہم میں بھی اور انہوں میں پہلے جو یاریاں تھیں
دونوں دلوں میں کیا کیا امیدواریاں تھیں
وہ منتظر کہ آویں ہم پر تپش کہ جاویں
اس ڈھب کی ہر دو جانب بے اختیاریاں تھیں
نہ ضبط ہے نگہ کا نہ رک سکے نظارہ
کیا شوق ورزیاں تھیں کیا بے قراریاں تھیں
اٹھنے میں بیٹھنے میں ہنسنے میں بولنے میں
کچھ بے شعوریاں تھیں کچھ ہوشیاریاں تھیں
جس جا نظیرؔ آ کر ہوتی ہیں الفتیں تو
واں ایسی ایسی کتنی عشرت شعاریاں تھیں
غزل
ہم میں بھی اور انہوں میں پہلے جو یاریاں تھیں
نظیر اکبرآبادی